ایران پر حملے کے لیے اسرائیلی طیاروں کو لازمی طور پر اردن، عراق، سعودی عرب، یا خلیجی ممالک کی فضائی حدود سے گزرنا پڑتا ہے۔ اتنے بڑے بھارٰی ہتھیاروں سے لیس فضائی بیڑے کی حرکت کو کوئی ریڈار نظر انداز نہیں کر سکتا، لیکن حیرت انگیز طور پر:
کسی ملک نے ایئر ڈیفنس الرٹ جاری نہیں کیا،
کسی نے اسرائیلی فضائی خلاف ورزی پر احتجاج نہیں کیا،
کسی نے طیارے انٹرسیپٹ نہیں کیے۔
یہ خاموشی محض اتفاق نہیں بلکہ ایک "پہلے سے طے شدہ رضامندی" کا پتہ دیتی ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے کئی حکمران اسرائیلی حملے سے پہلے سے باخبر اور خاموش شراکت دار بنے ہیں۔
بظاہر یہ حملہ اسرائیلی عسکری صلاحیت کی ایک شاندار مثال ہے، مگر اصل میں یہ حملہ ان ممالک کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے جو آج خاموشی سے اسرائیلی مقاصد میں شامل ہیں۔